Urdu Novel Rooh E Ada Complete PDF Download By S Merwa Mirza Novels
"نامہ!بہت بکواس کرتا ہے ناں تمہارا باس"
وہ اسکی طرف دیکھے بدحواس اور دکھی ساتھ ہوا تو نامہ کی اس بار بس بھوری آنکھیں مسکرائیں،وہ اسکے ہاتھ سے ہاتھ چھڑواتی دوسری سائیڈ سے اٹھ کر پیر نیچے لٹکائے اپنی ہیلز ڈھونڈنے لگی۔
"ابھی سچ بولنے کا موڈ نہیں میرا،آپکو ہوسپٹل ڈراپ کر دیتی ہوں۔پھر میں گھر جاوں گی بابا کے پاس۔میری ہیلز کہاں ہیں؟"
وہ اٹھ کر نامہ کی طرف آیا تو اسکے پیر دیکھ کر نیت بگھڑنے لگی،نامہ کا دل گھبرایا تو فورا ادھر ادھر نظریں گمائیں۔وہ اسکے پیروں پر رہا سہا بھی لٹ چکا تھا۔
"گاڑی میں۔دراصل میں نے تمہارے پیروں کو ریلیف دینے کو انھیں وہیں اتار دیا تھا۔میں لے کر آوں؟"
نوح نے نظر سے چرائی تو نامہ اس سے پہلے اٹھتی نوح نے آگے بڑھ کر نامہ کو کسی گڑیا کی طرح بازووں میں اٹھایا،کہ وہ خود شاکی گھبرائی ڈری نظروں سے نوح کو دیکھ کر رہ گئی۔
"میرے جیتے جی یہ پیر زمین کی مٹی کو نہیں چھو سکتے،تم اسے میرا آرڈر سمجھنا"
وہ سختی سے جتا گیا۔
"آپ بھی میرے جیتے جی میری ہیلز کو چھونے کی کوشش نہیں کریں گے۔بہت برا لگ رہا کہ آپ نے انکو اتارا۔۔مجھے نیچے اتاریں پلیز سب لوگ دیکھیں گے۔پھر سے پینک اٹیک دلوانا چاہتے ہیں؟"
وہ سخت پریشانی سے منمنائی جیسے نوح نے اٹھایا نہیں بلکہ جان نکال لی ہو۔جبکہ اسے ننگے پیر چلنے دیتا ایسا ممکن کہاں تھا۔وہ اسکے پیروں سے اتنی محبت کرتا تھا کہ نامہ کو اندازہ ہی نہ تھا۔
"میں تمہارا باس ہوں۔تم نہیں ہو تو حکم صرف میرا چلے گا۔رہی بات پینک اٹیک کی،اگر میرے ہوتے ہوئے اب تمہارے ساتھ کچھ بھی برا ہوا نامہ تو نہیں جانتا خود کے ساتھ کتنا دگنا برا کر بیٹھوں تو اپنے حواس سنبھال لو یہی بہتر ہے۔اگر تم مجھے ہیلز لانے کی اجازت نہیں دے رہی تو میں تمہیں تمہاری جان یعنی Rolls-Royce تک ایسے ہی اٹھا کر چھوڑ کر آوں گا"
وہ اسکی کسی بات سننے کے موڈ میں نہ تھا اور نامہ کی جان نکل رہی تھی نوح کے اتنے قریب اوپر سے وہ اسکی گردن میں بازو نہ جماتی تو گر پڑتی،حالانکہ یہ بس نامہ کو لگا لیکن ایسا نہ تھا،وہ نامہ کو بہت ایزیلی ہولڈ کیے ہوئے تھا اور کبھی اسے گرنے دیتا ایسی نوبت نہ آسکتی تھی۔
"اسے میری جان مت کہیں ابھی"
نامہ نے روتی سی آواز میں بازو آخر نوح کی گردن میں حائل کر ہی لیا،اسکی گردن میں چہرہ چھپا گئی کہ کسی کا یوں سامنا جان اور نکالتا،نوح نے اسکی خوشبو کے ساتھ ساتھ منت بھی خود میں اترتی محسوس کی۔
"پھر کسے کہوں تمہاری جان؟"
وہ اسے ٹیس کرتا اسی طرح بازووں میں اٹھا کر لیے روم سے نکلا تو نامہ نے مزید زور سے نوح کو جکڑا کیونکہ وہ جانتی تھی پورے ہوسپٹل نے یہی نظارہ دیکھنا ہے اور وہ ہرگز کسی کو چہرہ دیکھانے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔
ابھی تو شکر یہ وریام ہوسپٹل نہ تھا،نوح کو نامہ نے کوئی جواب نہ دیا،سب نے ہی نوح ادا دوغان کی بازووں میں اس لڑکی کو سمٹتا دیکھے رشک آنکھوں میں بھرا تھا اور وہ اب زمانے کی پرواہ کیوں کرتا جب اس نے نامہ سے جڑھ کر ویسے ہی دنیا سے اک طرح کنارہ کر لیا تھا۔
وہ بری طرح کانپ رہی تھی،شاید پینک ہو رہی تھی،پہلے ہی دن نوح کا اس پر یہ ظلم کہاں برداشت ہو سکتا تھا،نوح نے اک ہاتھ سے کار ڈور اوپن کرتے جھک کر نامہ کو بہت مہارت سے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا تو وہ اپنی سرخ آنکھیں اور منہ پھیر گئی۔
"ویسے تمہارے پاس ایک آپشن اور تھا کہ تم میرے شوز پہن لیتی اور میں ننگے پیر آجاتا،ایسے تمہیں میرے گلے نہ لگنا پڑتا۔جان نکل رہی ہے اس سے تمہاری تو فیوچر کے لیے یہ ٹرک یاد رکھنا۔مجھے ننگے پیر چلنا ویسے بھی بہت اچھا لگتا ہے"
وہ اسکے کان سے لگ کر نامہ کے اندر اپنی سرگوشی اور نزدیکی سے لرزا اتار گیا،بھلا نامہ کیسے برداشت کرتی کہ وہ ننگے پیر چلتا۔
"ہیلز پہن لو۔"
وہ اسے دیکھتے اسکے پیروں پر سرسری سی نظر ڈالے دور ہوا اور ڈور بند کرتے گھوم کر جب تک ساتھ آکر بیٹھا،نامہ نے سیٹ پیچھے سرکاتے اپنی ہیلز پہن لیں اور دل بن کر دھڑکتی رہی کیونکہ وہ اسے دیکھ جو رہا تھا،ہیلز پہنتے ہی نامہ نے سٹرئگ سنبھالا پر نوح کو نہ دیکھا۔