Paras Wildflower's Man Urdu Novel Season 2 Episode 95 By S Merwa Mirza
وہ اک کونے میں اپنے خوبصورت وجود اور دلکشی کے جہاں کو سمیٹے ہنڈسم بنا کھڑا اک بجھ جاتی کینڈل خمار کے سنگ جلا رہا تھا،روشانے اسکو دیکھ ہی لیتی تو نشہ چڑھنے لگتا وہ ایسی تراشی مورت تھا جس کے حسن پر نظمیں اور عزلیں لکھی جا سکتی تھیں،اسکے سراپے میں کوئی کمی نہ رکھی تھی اللہ نے،وہ جیسے شاعروں کی اک اصطلاح ہے ناں کہ فلاں شخص کو رب نے فرصتیں دے کر سنوارا ہے وہ بلکل پارس عیسی مغلانی پر بجا سجتا تھا پھر بلیک میں ہمیشہ وہ روشانے کی کالی کالی آنکھوں کا سرور بن جاتا تھا۔
وہ کتنی ہی دیر خود کو مسیر اس دلفریب شخص کے رشک میں لپٹی مسکراتی رہی،پورا جسم بس پارس کو دیکھ کر ہی پر حدت ہوگیا،جیسے وہ اسکی طلب سے ہر لمحہ بھری رہتی تھی،اتنا پیار،اتنا انس تو شاید روح زمین پر نہ تھا جتنا روشانے کے دل میں اس شخص کے لیے بسا تھا پھر وہ کیسے دیر پا روٹھی رہتی،وہ ایسا تھا کہ اپنی اک جھلک سے پتھر پگھلا دیتا تو روشانے کا دل کیا چیز تھا جو پارس کے عشق میں اسی کی مرضی کے قالب میں ڈھلا تھا۔
موم بتی جل گئی،پارس کی نظر اٹھی،نیلی آنکھیں بے حد چاہت کے نشے سے سیر ہوتی اس آپسراہ کے سراپے سے جا الجھیں،سر تا پیر اک اک انگ تک ان نیلی آنکھوں نے پورے حق سے روشانے کو نہارا،اتنا شدید کہ روشانے کو لگا دل بذات خود اک دھڑک بن گیا ہو،روشانے کو پگھلتا ہوا،اپنے جلووں سے گھائل دیکھتے ہی پارس نے یہ دوریاں ختم کرنے کا فیصلہ لیے لائٹر وہیں ٹیبل پر جھک کر رکھتے اس ماہ جبین جان کی طرف قدم بڑھائے جیسے طوفان کسی بھنور کے دامن میں چھپنے کو مچلتا ہوا جاتا ہے،جسے روکنے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی۔
"مجھے مارنے کا ارادہ ہے؟"
وہ اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے کی نیت باندھ ہی رہا تھا کہ وہاں جل پری اسکے سراپے کی تپش سے بوکھلائی اختجاج کر اٹھی،اف اس قاتلانہ مسکراہٹ کا کیا کیا جاتا اب جو پارس کے دنیا جہاں سے خوبصورت ہونٹوں پر روشانے کا حق و رزق بن کر عودی تھی،وہ پاگل نہ ہوتی تو کیا کرتی۔
یہ آدمی اسی لیے تنہائی چاہتا تھا کہ ایسے وار کر کے روشانے کو سب بھلا دیا،وہ دنیا بھول جاتی تھی اسکے نزدیک،اسکی بازووں کا حصار ذات کا سکھ تھا،تسکین تھی۔
"نہیں!تمہارے لیے میں خاضر ہوں۔تم مجھے مار سکتی ہو خود تو میرا جاوداں سرور ہو تم۔تمہاری اک نظر پھیرنے کی دیر ہے اور پارس عیسی مغلانی ختم"
وہ اسکے پاس آیا،اسے اپنے سینے لگا کر دیر تلک روشانے کو محسوس کرنے کی خواہش ان آنکھوں میں تیر رہی تھی۔
"کیوں کیا پھر یہ؟مجھے خفا کیوں کیا؟"
وہ اسکے گریبان تک ہاتھ لے جاتی اس بے بسی پر تڑپی جو اتنے پاس ہو کر بھی خود پر جبر کرنے سے جڑی تھی۔
"ہو گیا۔بے دھیانی میں۔تمہاری فکر میں۔تمہاری حفاظت کے ارمان کے ہاتھوں۔میں ڈرتا ہوں تمہیں کوئی آگ نہ چھو لے۔میں جل جاتا ہوں اس خوف تک سے میری جان۔"
وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا پر روشانے چاہتی تھی وہ کبھی اس سے اپنا آپ نہ چھپائے۔
👇آن لائن پڑھنے کے لیے اس بٹن پر کلک کریں۔
👇کمنٹ سیکشن میں ہمیں بتائیں کہ آپ کو آج کی قسط کیسی لگی۔۔