Urdu Novel My Beloved Prisoner Complete PDF Download By S Merwa Mirza Novels
Writer : S Merwa Mirza
Status: Complete PDF
"مجھے لگا تھا تم کافی اچھے اور ویل مینرڈ ہو، یہ رئیسانہ شوق بھی ہیں زرا اندازہ نہ تھا۔ تمہیں پتا ہے یہ سموکنگ، لنگس کے لیے کتنی خطرناک ہے"
باہر آتے سمے تو وہ سہمی تھی لیکن اب وہ ناراضگی بھری نظروں سے اسے دیکھ کر ڈانٹ رہی تھی۔
"یہ رئیسانہ شوق نہیں، ایک مجبوری بھی ہوا کرتی ہے۔ اور یہ سستا شوق تو راہ چلتا فقیر بھی پال سکتا ہے"
اس شخص کے پاس لعلین ابراہیم کو لاجواب کرنے کا ہر ڈھنگ موجود تھا، لئیق کے سپاٹ جواب پر اسکے چہرے کی رنگت پیلی سی پڑی۔
"اچھے نہیں لگے تم مجھے یوں"
وہ اپنے خفگی کہے اسکے پاس کھڑی ہی آنکھیں جھکا گئی جبکہ لئیق ایزد علوی کے ہونٹ زرا سے مسکرائے۔
"یعنی ویسے لگتا ہوں؟"
اس شاطر ماہر باز کے سوال پر لعلین نے جھٹکے سے سر اٹھایا، وہ مسکرا رہا تھا یعنی وہ اب پہلے سے بہتر تھا۔
"ایسا تو نہیں کہا، تمہیں پتا ہے ابھی میں تم سے بھاگ کر اپنے روم میں جا رہی تھی۔ لیکن اب پلین کینسل ۔۔۔ لال بہت ایماندار ہے، ایسی بے ایمانی مجھے زیب نہیں دیتی کہ خود ہی اپنی رات دے کر میں تم سے چھین لوں"
اس لڑکی کی آنکھیں، ہونٹوں سے زیادہ دلفریب بولتی تھیں، تبھی تو وہ دم بخود رہ جاتا، لئیق نے اپنی بازو اسکے گرد نرمی سے حائل کیے اسے زحمت ترک کرتے قریب سے دیکھا، اک لمحہ وہ لڑکی اسکے ان نرم مگر دل کو تھام لیتے انداز پر بوکھلائی مگر جلد ہی بیچ کی جھجھک پر گرد سی پڑتی محسوس ہوئی۔
"آپ چھین بھی سکتی ہیں، کم ازکم وہ سب جو آپکی بدولت مجھے ملا، اسے چھینے کا اختیار صرف آپکے پاس ہے"
وہ اسکے جواب پر اور اس شخص کی نرماہٹ پر اسے جس طرح دیکھ کر مسکرائی، قیامت تھا۔
وہ مسکراتی تو ایسا لگتا کہ جیسے دل کو وہ ایک جھٹکے سے کِھینچ لے گی۔
"میں نے تمہیں دیا ہی کیا ہے پاگل ، بے چینی کے سوا۔ لیکن تم ہمیشہ مجھے یاد ضرور رکھو گے کہ کوئی لعلین ابراہیم تمہاری زندگی میں آئی تھی"
اسے خود پر غرور تھا تو وجہ لئیق تھا کیونکہ اس شخص نے اس لڑکی کے غرور کو ٹھیس پہنچنے دی ہی نہ تھی۔
اسے مسرت ہوئی کہ وہ ایسی جان لیوا باتیں بھی کر سکتی ہے۔
"بالکل یاد کروں گا کہ اک لڑکی، میرے قریب آکر بھی میری خواہش میں زرا نہ مبتلا ہو پائی۔ یاد کروں گا کہ وہ بہت اصول پسند تھی ، اسے اپنی زندگی کا اندھیرا بانٹنے کی عادت نہیں تھی۔ وہ اکیلی بھی فاتح تھی، اسے کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں تھی"
اس شخص کے چھپے اعتراف کے باعث اس لڑکی کی آنکھیں بوجھل ہوئیں تو روم روم میں تھکاوٹ بھر گئی، اس شخص کے لفظ بے جان تھے مگر لہجے میں ان کہی شدت تھی۔