Urdu Novel Rooh Nasheen Complete PDF Download By S Merwa Mirza Novels
Writer : S Merwa Mirza
Status: Complete PDF
"میں صرف اس چمک پر یقین رکھتا ہوں روح نشین! جو تمہارے سبب میرے دن رات میں گھلے، میری ٹھنڈی صبحوں کو پرحدت لمس درکار ہیں تمہارے، اور تپتے دنوں میں تمہارے سائے کی چھاوں بہت ہے، سرد گرم راتوں میں تمہیں حسب ضرورت و چاہت اپنا حصار بناوں گا۔ تم سراپا سکون ہو میرا"
وہ بول نہیں رہا تھا، وہ اسم محبت پھونک کر اپنی زندگی کے سنہرے پن کو سیلیبریٹ کر رہا تھا۔
وہ پلکوں کی باڑ نہ گرا سکی ، بس اپنے ہاتھوں کو اوزان کی گردن کے اطراف جما کر پیروں پر اٹھی اور اوزان نے سر جھکا کر ایک بار پھر اسکے ہونٹوں کو اپنی پیشانی میسر کی، کشادہ جبین پر تادیر ان گلاب ہونٹوں کے بوسے کی حدت اوزان کی دھڑکنوں سے الجھتی رہی۔
"رہی بات ناراضگی کی،بلاوجہ روٹھنے کی عادت ہے مجھے لیکن تم یونہی مناتی رہنا۔ مجھے تمہارا میرے لیے اس قدر بے چین ہو جانا پسند ہے۔ میں ایسی ہمیشہ شرطیں رکھ کر تمہیں کچھ پل کے لیے اپنا قیدی بنایا کروں گا، چپ چاپ شرافت سے میری قید میں پھنس جانا، اوکے؟"
وہ اسکی تاکید پر زرا جذب سے بھری، آنکھوں میں انتہا کی راحت اتری، اسکے مہکتے چوڑے سینے میں چہرہ چھپائے گلے لگ کر ہاں کہی، جیسے اسی قید کے لیے ہی آزادی کو قبول کیا ہو۔
"بول کر کہو، یہ بکری کی طرح سر کیوں ہلا کے چھپ گئی"
اوزان نے کچھ دیر تو اسے اپنی دھڑکنوں سے کھیلنے دیا مگر پھر پکڑ کر روبرو لائے اسکی بھیگی پلکیں دیکھ کر سنجیدہ ہوا۔
وہ آنکھیں چھپک کر آنسو کو گال پر سرکنے کی کھلی اجازت دیے پھر سے اس کے سینے میں چھپنا چاہتی تھی پر اوزان نے اسکی بازووں کو پکڑے لپٹنے سے روکا۔
"میں تمہارے لیے ایسا سب تو ہر دن ہر لمحہ کہوں گا تو کیا ہر بار ایسے رو گی تم؟ سنو اچھے نہیں لگتے مجھے تمہارے آنسو۔"
اوزان کی آزردہ تنبیہہ اور اسکی گال کی نمی انگوٹھے کی پوروں میں جذب کرنے پر وہ منہ پھلا گئی۔
"اور ہنستی ہوں تو جان لے جاتی ہوں آپکی، پھر میں خوشی یا دکھ میں کیا کیا کروں گی اگر رونا ہنسنا ممنوع ہے؟"
تھوڑا تپ کر سوال آیا، اوزان کی آنکھوں کا مرکز اب تک وہی تھی۔
"میرے پاس آجایا کرنا، خوشی دکھ کے ہر ثانوی جذبات بھلا نہ دیے تو کہنا۔۔۔۔۔مجھے اپنے ٹیلنٹ پر پورا بھروسہ ہے، آزما چکی ہو مجھے کئی بار، جب جب مجھے یوں دیکھتی ہو میرے دل کے سوا یہ موسم، یہ منظر، یہ پوری دنیا خمار میں غرق ہو جاتی ہے"
ایسے مشورے پر زینیش کا دل مرکز سے ہٹا۔
"آپکے پاس موجود ہوتے ہوئے اگر دکھ یا خوشی کبھی مجھ پر شدت سے طاری ہوئے تو؟ بہت سا رونا بھی پڑا یا بہت سا ہنسنا"
سوال دلچسپ تھا، اوزان دایب انصاری کو تو وہ ہمیشہ لاجواب کرتی تھی پر آج تو حد کر دی۔
"تو؟ تمہارے ساتھ برابر مسکراوں گا اور رو بھی لوں گا"
سوچے بنا ہی اوزان نے کہا لیکن اسے گماں نہ تھا زینیش کھلکھلا جائے گی۔
"یہ بیسٹ ہے"
فوری ہنس کر وہ اس سے دور ہٹی۔