Urdu Novel Tum Noor E Dil Ho Complete PDF By S Merwa Mirza Novels
Writer : S Merwa Mirza
Status: Complete PDF
Genre : Forced Marriage, Friendship Based, Hidden Nikah, Second Marriage Based, Modern Romance, Turkish and Baltistani Touch.
"یہ تمہاری سزا تھی، کس کی اجازت سے رکی تم کل۔۔۔۔۔۔جواب دو" شمائیل کے چہرے پر تناو اور لفظوں میں سخت برہمی تھی اور وہ بمشکل چہرہ اٹھائے شمائیل کو دیکھ پائی جو اسے اس وقت دنیا کا سب سے برا شخص لگا۔ جائشہ کی گالیں اور ناک سرخ ہو گیا تھا اور وہ بھرائی آنکھوں میں سخت شکایت بھرے اسکی گرفت سے نکلنے کو مچلی مگر وہ گرفت کوئی عام نہ تھی۔ "اموو جان کو بتایا تھا، ان سے پوچھ کے گئی تھی۔ اسوہ کو میری ضرورت تھی، چھوڑیں مجھے آپ بہت برے ہیں" شمائیل کو اب خود پر ملامت تھی کیونکہ واقعی یہ سزا اس نازک کے لیے برداشت سے زیادہ تھی۔ اے سی کی اس اخیر ٹھنڈ میں قہر ناک کولینگ ابھی تک کمرے میں جما دینے والی ٹھنڈک بنائے ہوئے تھی اور جائشہ کے گرد شمائیل کی حدت زدہ گرفت بھی اسکی وجود کی کپکپی دور نہ کر پا رہی تھی۔ وہ اب روتی ہوئی اس سے دور جانا چاہتی تھی۔ "تمہاری شادی کیا دادو سے ہوئی ہے، یا اسوہ سے۔۔۔ اور خبردار جو تمہاری آنکھ سے ایک آنسو بھی نکلا، خاموش ایک دم" وہ اس پہلے سے خوفزدہ کو اچھا ڈانٹ کر بولا اور وہ روتی ہوئی نہایت کیوٹ لگ رہی تھی، ناک سکیڑتی جائشہ اس گرفت میں بے جان تھی اوپر سے اس سوال پر وہ اسے دیکھنے لگی جیسے جواب کو دور دور نہ ڈھونڈ پائی ہو۔ "اگر میں مر جاتی ٹھنڈ سے، اگر آپ واقعئ مجھے مارنا چاہتے۔۔۔۔۔۔۔۔" جائشہ نے شمائیل کے سوال کو چنداں اہمیت نہ دیتے ہوئے بات تو کہہ دی مگر اسکے الفاظ بیچ میں ہی رہ گئے کیونکہ شمائیل اسے اپنے وجود میں حلول کیے شدت سے جذب کرتا کچھ پل بعد ہنوز اسے بیقراری سے سینے میں لیے گرمائش پہنچانے کے بعد بیڈ پر لٹائے اب اس پر جھکا ہوا اسکی سرخ درد سے اٹی آنکھیں دیکھ رہا تھا جو کسی ٹرانس میں غرق تھی۔ یوں جیسے شمائیل نے پل بھر میں اسکے کپکپاتے وجود کو دہکا دیا تھا، وہ اسے اپنے بس میں کر رہا تھا۔ اس دوران جائشہ بھئ جنبیش تک کی روادار نہ رہی تھی۔ "میں نے یہ نہیں پوچھا، تمہاری شادی کس سے ہوئی ہے؟ آنسر می" جائشہ کا دل بری طرح کانپ اٹھا کیونکہ وہ اسکے ہاتھ پر آہستگی اور خماری سے اپنا ہاتھ رکھے اپنی انگلیوں کو اسکی انگلیوں میں پھنسانے اسکے چہرے پر مکمل جھکا ہوا پوچھ رہا تھا اور وہ جواب تو کیا سانس تک لینا بھول گئی۔ "آ۔۔۔۔آپ س۔۔۔سے" جائشہ نے بمشکل تھوک نگلے بات نکالی اور وہ شمائیل کے یوں اس قدر قریب ہونے پر سخت نڈھال تھی۔ دل میں جتنی دعائیں آتی تھیں وہ سب پڑھے وہ اس جن سے رہائی چاہتی تھی جو اسے بخشنے کے کسی موڈ میں نہ تھا۔ "مجھ سے، اس بات کو اپنے چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو۔ میری اجازت کے بنا اب تم کہیں گئی تو اگلی سزا تمہاری سوچ سے بھی بڑی ہوگی" شمائیل کی حدت زدہ سانس وہ اپنے چہرے پر پھیلتی محسوس کیے سخت لرز رہی تھی۔