Urdu Novel Qurbaan Complete PDF By S Merwa Mirza Novels
Writer : S Merwa Mirza
Status: Complete PDF
Genre : A Story Full Of Love Madness, Sacrifice And True Feeling Of Love And Soul.
"آج تو تم سیدھا سیدھا قتل کر ڈالو گی یمان مہر، تھوڑا حسن کہیں چھپا لیتی یار" دھیمی چال چلتا وہ خمار آلود سی آواز میں شکائیت کرتا اس پری پیکر تک پہنچا جو اسکے قریب آتے ہی معصوم سی شکائیت پر پلٹ گئی، اس لازوال حسن پر صلدم کی دھڑکن سست ہوئی۔ وہ آنکھیں آج جذب سے بھرپور تھیں۔ "کہتے ہو تو منہ پرتھوڑی مٹی مل لوں، ڈھنگ سے تعریف تو کرو۔ اس سے اچھا تھا تم عاشق کے بجائے جنونی دیوانہ ہی رہتے۔۔۔۔۔۔" حسب توقع شیرنی آج حق سے محروم رکھے جانے پر تفاخر سے چمکی، اور اسکے اس روپ کو دیکھ کر صلدم کو ابھی سے زن مرید والی فیلنگ آئی تبھی تو وہ دانتوں کی نمائش کرتا قریب آتے ہی بے خود ہوا۔ خود یمان مہر کی بے باکی جھاگ کی طرح بیٹھی۔ خطرناک ہیزل گرے آنکھوں کا مرکز وہ عنابی لب تھے، بھرے بھرے نرم، پھر وہ آنکھیں جو جذبات کا پیمانہ تھیں، وہ چہرہ جو مہتاب کی مانند صلدم کے آسمان پر چمک چکا تھا۔ "عاشق کہو گی تو عاشق بن جاوں گا۔ دیوانہ کہو گی تو دیوانہ بن جاوں گا۔ اور محبت کہو گی تو ایک لمحے میں قربان ہو جاوں گا" ان سیاہ کاجل کی لپیٹ میں سموئی آنکھوں کو تکتا وہ اسکے دہکتے حسن کو دیکھنے کی کہاں تاب رکھتا تھا جو پل پل صلدم کے قریب آنے پر گھبرا سی رہی تھی، روکنے کی بھی ہمت کہاں باقی تھی۔ مقابل کی آنکھیں ویسے کم ظالم تھیں جو خمار سا بھرے وہ یمان مہر کی جان نکالنے کے در پر تھا ۔ "بندہ کہوں گی تو کیا بندہ بن جاو گے" کسی نازک جسارت سے بچنے کی کوشش میں وہ صلدم کو واپس مسکرانے پر مجبور کرتی خود بھی شدید پیارا مسکرائی۔ "تو اور کیا یہ تمہارے سامنے بندر کھڑا ہے" اب اتنے ہیڈسم بندر تو یمان نے کبھی نہ دیکھے تھے تبھی تھوڑی سوچ میں تھی۔ "ہو بھی سکتا ہے، دراصل مجھے ابھی دنیا کے سارے بندروں سے ملنے کا اتفاق جو نہیں ہوا" محترمہ کو اس سنگین سی ظالم رات مزاق سوجھ رہے تھے اور وہ تو اب منہ بسورتا ساتھ ساتھ کیوٹ لگا کیونکہ آنکھیں چنی کیے گھوری سے نوازتے ہی اس پھڑکتی شعلہ بنی آپسراہ کی نازک کمر میں ہاتھ ڈالے اپنی اور کھینچا۔ "بندر کی بندری" گال چومتا وہ ہنستی یمان کی ساری حسیں دبوچ چکا تھا ، اک بے خود سی خاموشی کا راج تھا جو ان دونوں کے بیچ اک بے انتہا پرکشش سنگم جوڑ گیا۔ وہ ان آنکھوں سے ہمکلام تھی جو کسی بادشاہ کی تھیں، جن میں ملکہ کے لیے جذبات کا سمندر موجزن تھا۔ "بہت بے مثال ہو تم یمان مہر، اتنی دلکش کہ نظر تعظیم میں خود جھک جائے۔ بہت تھک چکا ہوں اس لمبے سفر سے، اب تو وہ اظہار سونپ دو جو میری تھکن اتار دے گا" ان آنکھوں میں جھانکتا وہ جذب سے خواہش کہتا سنجیدہ ہوا، خود یمان کی دھڑکنیں سست سی ہوئیں۔ کہاں آسان تھا اب بھی اظہار، کہاں سہل تھا ان من پسند آنکھوں کو بے باکی سے چوم لینا، کہاں ہمت تھی ان ہونٹوں کے گیت ہونٹوں کی زبانی سننے کی، کہاں جوش تھا اس وجود کو اپنی ننھی باہوں میں سمیٹ کر ہار جانے کا، کہاں جرت تھی اس ساحر کو کہنے کی کہ وہ رگوں میں محبت بن کر دوڑنے لگا ہے۔ دل پر ثبت ہے، روح پر درج ہے۔ آنکھوں نے آنکھوں سے کئی اظہار کیے، چپکے سے سرگوشیوں میں بدن تک بدن کے پیغام پہنچے، دل اس قربت کا گویا مدت سے طلب گار، تشنگی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی مگر یمان مہر ابھی بھی ہمت والی نہ تھی۔ "تم حقیقت پسند ہو ناں صلدم ولی شاہ، تو تمہیں پتا ہوگا عورت کبھی آسانی سے محبت کا اظہار نہیں کرتی" بچ نکلنے کی بہت موہوم کوشش کرتی وہ صلدم کے سینے پر ہتھیلوں کی نرمی پہنچائے اسکے کمر حصارنے پر بڑی مسرور ہوئے بولی مگر وہ بھی سن کر فدا ہوا۔ "عورت نہیں کرتی ہوگی، یمان مہر تو کرے گی۔ بنا اظہار کے تو سرشار نہیں ہوگا آج میرا دل۔ تم نے کہا تھا تم تو لڑکی ہو، اچھی لڑکی اظہار کرو ناں" بری چالاکی سے وہ یمان ہی کی کہی بات اسی کو یاد دلاتا پھر سے مشکل سے دوچار کر چکا تھا، جو ٹرانس ٹوٹا تھا آج تک جڑھ نہ سکا تھا۔ "تھوڑے اور مسکین بن کر مانگو پھر سوچوں گی" شرارت سے آنکھوں میں رتن سی چمک بھرتی وہ صلدم کے کمر کے گرد تنگ کرتے حصار پر گھبرائی، زرا سی جنبیش پر چہرے ٹکرا سکتے تھے۔ ایک دوسرے کی گرم سانسیں گڈمڈ ہوتے اک دوسرے کے چہرے تک پہنچ رہی تھیں مگر وہ اظہار تک آتے سہم رہی تھی۔