Urdu Novel Tum Bas Mery Ho Complete PDF By S Merwa Mirza Novels
ناول: تم بس میرے ہو
رائٹر: ایس مروہ مرزا
سنیک پیک
"یہ بیڈ پے کباڑ کیوں پھیلا رکھا ہے ؟ سمیٹوا سے مجھے سونا ہے"
آئینے کے سامنے مضبوط لہجے میں خود پر نظر ڈالے سوال کے ساتھ ہی حکم صادر کرتا عید ایک بار پھر محمل کو غضب دلا چکا تھا، اور وہ جو سوئی بنی تھی اب تپ چکی تھی۔ اب وہ اٹھی ہی نہیں بلکے بیڈ سے بھی اتر کر اسکے سامنے اگر تن چکی تھی۔
عبید بھی رخ پھیرے روبرو ہوا، تو محمل کی ناک پر بیٹھا غصہ عبید ملک کو بہت دلچپ لگا تھا۔ وہ حسن سے لدی آپسرہ اسکے اس قدر روبرو تھی کہ دل تو کیا دماغ بھی خمار میں لپٹنے کی آرزو کر رہا تھا۔
آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں، اتنی اکڑ ہے کس چیز کی ہے۔ میرا یہاں پہلا دن آپ آخری بنا رہے ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ شادی آپکی مرضی سے ہے یا زبردستی کی ، لیکن جو بھی ہے، بندے میں لحاظ مروت تو ہونی چاہیے ناں۔۔۔"
محمل خفگی سے اس پر چڑھ دوڑی تھی، اور عبید بھی اسکے سحر سے کچھ باہر نکلا، یہ لمحہ ہی کامل تھا جب وہ اسکے روبرو کھڑی اسکی آنکھوں میں جھانک کر محو گفتگو ہے ۔ مقابل اس قدر مطمین ریکشن تو محمل کے جلے پر مزید نمک چھڑک چکا تھا، دانت پیستی وہ مڑکر دوبارہ سے بیڈ کی طرف گئی۔
اور اپنی جیولری اور چوڑیاں دونوں ہاتھوں سے جمع کیے عبید کے قریب ڈریسنگ پر پھینکنے کے انداز میں دھرے پھر سے ہاتھ باندھے اس کمزور سے دل والے پر اچٹتی نظر ڈالے قریب ہوتے روبرو ہوئی۔
"یولک سو بیوٹی فل، لیکن زبان زرا بھی پیاری نہیں، مجھے زرا پسند نہیں آئی"
اس بندے کی تعریف بھی جلی کٹی ہوگی یہ جان کر تو محمل کا ہاتھ ہے ساختہ دل پر گیا تھا جو بڑے مزے سے کہتا پھر سے آئینے کے سامنے اپنا حسن دیکھنے میں لگ چکا تھا، مخمل نے اسکے پلٹنے پر کوفت و ناراضی سے دانت پیسے، وہ کیا جانتی کہ وہ شخص تو اپنے دل کے بہک جانے پر بندھ باندھنے مڑا ہے۔
آپکی کونسی عطر میں گندھی ہے، زبان کانٹے دار اور خود چلے ہوئے، کسی نے آپکو تمیز نہیں سیکھائی کہ بیوی سے کیسے بات کرتے ہیں "
اس غصیل آواز پر عبید بھی محمل کا گلوگیر لہجہ بھانپنے فورا سے مڑا جہاں اداسی اپنا ڈیرا جمائے اس سامنے والی کے چہرے کا حسن گہنا رہی تھی۔ بس اب دل کی خواہش کا احترام لازمی تھا۔ مخمل کے قریب ہوتے وہ اس پر اپنی جادوئی نظریں مرکوز کیے اسے بھی سٹپٹانے پر مجبور کر گیا تھا۔
پہلا پہلا ایک ایکسپیرینس ہے میر عبید۔۔۔ تمیز بھی آجائے گی۔۔"
اپنے دونوں بازو وہ اس نڈھال پری کے کندھوں پر دھرے ہاتھوں کو بیک پر باندھے معنی خیزی سے اسکا چہرہ بری طرح آنکھوں کے تیز پر تپش محور میں فوکس کیے بولا تھا، اور وہ کرنٹ کھائے اس بلکے ظالم حصار سے گھبرائی ہوئی فورا نکلی تھی مبادا وہ جکڑ لے گا، دماغ اتنی قربت پر معاوف ہوا۔
یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی۔۔"
مخمل کی نظریں جھک کر سامنے لرزا طاری کر گئی تھیں، عبید ملک کے چہرے پر انتہا کی سنجیدگی ابھر کر اسکے ماتھے کی رگیں تان چکی تھی۔ یہی، یہی ڈر تو تھا جو ایک ہی پل میں حقیقت بن کر اس بے حال شخص کے منہ پر پر دے مارا گیا تھا پر اسے خود کو سنبھالنا آتا تھا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ لیکن اب تو ہو گئی، اور اب یہ بات بھی فضول ہے ۔۔۔
اچھا ہو گا کہ اپنی مرضی شامل کر لو"
محمل نے عبید کو یوں رحم طلب ہوئے دیکھا جیسے وہ شدید حیرت زدہ ہوئی تھی اس کے نارمل رد عمل پر۔ عبید کی نظروں کی سختی اسکا خلق خشک کر گئی۔
میں کسی اور کو چاہتی تھی، آپکی وجہ سے میں نے اپنی چاہت ترک کر دی ، میرے دل میں سوائے خالی پن کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس رشتے کو میں ضرور سنجیدہ لیتی اگر میری شادی کسی انسان سے ہوتی ۔ "
محمل کی آخری ڈھائے قہر پر تو عبید غضب ناک ہوتا ہوا اسکے مزید قریب آیا تو وہ پیچھے ہوتی ہوئی دیوار سے جا لگی۔ یہ لڑکی تو واقعی دشمن جان نکلی تھی۔ عبید کا دل لرز اٹھا تھا، اور چہرے پر ہولناک خفگی چھا چکی تھی۔
تو کیا لگ رہا ہوں میں تمہیں، کوئی خون خوار بھی لیا۔۔۔۔ بولو"
اسکی ایک بازو اپنے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں سختی سے لیتا وہ اسکی آنکھوں میں جھانکے عتاب زدہ ہوا۔ مخمل اسکے ہاتھ کی ایسی شدید گرفت سے بوکھلا ہی گئی، باقی کی کسر عبید کی اسقدر قریب ہو کر پوری ہو رہی تھی، دونوں کی تپش زدہ سانسیں ایک دوسرے تک با آسانی پہنچ رہی تھیں۔ جیسے آج سب کچھ جلا دیں گی۔
" مجھے درد ہو رہا ہے، آپ واقعی پتھر ہیں، مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی" مخمل دوسرے ہاتھ سے اسے پرے دھکیلتی ہوئی بہت بے بسی لیے بولی مگر وہ تو اس چہرے کو اپنی آنکھوں کی تپش کے سنگ ویسی ہی جلن سے دیکھ رہا تھا جیسے اسکی جان لے لینا چاہتا ہو رقابت کے تماچے کے بدلے آخر وہ کرتا بھی کیا۔
"مجھے بھی کوئی تمنا نہیں بات کی، لیکن تم مجھے خاصا تنگ کر چکی ہو، میری رقابت کا قصہ بیان کر کے۔ دل تو چاہ رہا ہے تمہارے دیے اس تخفے پر تمہیں ایک دل دہلا دینے والا انعام پیش کروں مگر خیر، عبید ملک اپنے معیار سے گرتا نہیں ہے" ایک ہی جھٹکے سے وہ بے دردی سے اسکی بازو چھوڑے خونخوار انداز میں مڑا مگر پھر رکا، مخمل نے ہلکی سی نمی کے سنگ اپنی سرخ ہوتی کلائی کی طرف دیکھا تو آنسو آنکھ سے آزاد ہو کر رخسار پر ڈھلک آئے۔
"یہ میری سب سے ہلکی گرفت تھی مخمل سکندر، آگے سے مجھے انسان ہی رہنے دینا۔۔۔۔ورنہ مجھے جانور بننے میں دیر نہیں لگے گی، اب تم جتنا چاہے سو لو۔۔۔۔۔" طیش مدھم کیے وہ اپنے تنے لہجے میں کہتا ہوا سٹڈی کی طرف گیا اور پورے زور سے دروازہ بند کر دیا، آواز اتنی تیز تھی کہ مخمل بھی ہل گئی تھی۔ بس پھر کیا تھا، آنسووں کی ناختم ہونے والی قطاریں شروع ہو گئی تھیں، سٹڈی کے روم کو خوفناک خفگی سے گھورتی ہوئی وہ شدید رو رہی تھی۔