Paras Wildflower's Man Urdu Novel Episode 22 By S Merwa Mirza
"تم سب کہہ سکتی ہو۔تمہیں یہ کہنے کی اجازت نہیں۔میں تمہیں چاہ کر بھی سختی سے چھو نہیں سکتا۔مجھے مجبور مت کرو"
وہ روشانے کے دونوں ہاتھوں میں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھائے سختی سے اسکے بلش چہرے اور اکھڑ کر منجمد ہوتی سانسوں کو محسوس کرتے دھیما سا غرایا،کسی بے قابو بادل کی طرح کھل کر برسنے کے بعد اسے گرجتے کم ہی دیکھا جاتا ہے پر آفرین تھی روشانے جسے یہ ذاتی لافانی منظر عطا ہوا۔
"اب بھی یہی کہیں گے کیا؟۔اب تو آپ نے اپنی اور میری جان ایک کر دی۔مجھے کہنے دیں۔میں فلیش بھی لائی ہوں۔مجھے مت روکیں"
وہ اسکے اب تک اس سے منع کرنے پر دل و جان تک بیقرار ہوئی۔
"تم نہیں کہو گی روشانے۔مجبور مت کرو کے تمہیں ہر طرح بے بس کر دوں۔"
وہ سخت سنجیدہ تھا،اور اس شخص کی یہ جان لیوا تنبیہہ روشانے کو پاگل کرنے لگی۔
"بے بس ہونا منظور ہے۔مجھے کہنے دیں۔کہنے سے بہت سکون ملے گا پارس"
وہ کسی طرح بھی بات ماننے پر آمادہ نہ تھی۔
"آئی سیڈ نو روشانے۔۔۔۔۔"
وہ اسکے ہاتھ آزاد کرتا سخت برہمی سے کہے پاس سے اٹھ گیا،روشانے نے مسکرا کر اسکی چوڑی پشت تکی اور اسکے فولادی وجود کو آنکھوں کا،محور بنائے کچھ دیر پہلے خود پر اسکے بوجھ کا سوچے بھاری سانس کھینچی،وہ اپنے بالوں میں اضطراب سے ہاتھ پھیرتا سخت مشکل سے دوچار لگ رہا تھا تبھی وہ اٹھی اور پیچھے سے جاتے ہاتھ پارس کے سینے پر باندھتی ساتھ جا لگی۔
"تم اتنی ضدی کیوں ہو؟"
وہ اسکے بازو سے پکڑتا ایک ہی جھٹکے سے گھسیٹ کر سامنے لایا،وہ ساری شرارت سے نکل کر فرمابردار بن گئی،خمار اور نشہ کچھ حواسوں سے اترا۔
"خود کو میری نظروں سے اک بار دیکھ لیں،جواب مل جائے گا۔"
پارس اسکے سحرانگیز جواب پر لاجواب ہوا،یہ لڑکی ہر رنگ و روپ میں قابل چاہت جو تھی۔
"چینج دا ٹاپک"
وہ چڑ گیا۔
"جہاں آپ میرے ہونے لگیں وہاں ٹاپک چینج کر دیا کریں ویری گڈ مسٹر پارس۔جا رہی ہوں۔سوئمنگ پول میٹنگ کینسل کر رہی ہوں کیونکہ میں بھی وہ افورڈ نہیں کر سکتی اب۔کل میری Calabria کی فلائیٹ ہے صبح میں۔اگر مجھے گڈ بائے کہنے کا دل چاہا تو ائیر پورٹ سی آف کرنے آ جائیے گا"
وہ روٹھ گئی،اسے پارس سے وہی باتیں کرنی تھیں جو وہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔
"تم ہو گئی ہو میری اتنا کافی نہیں کیا۔اور یہ ڈرامے بازی اس وقت نہیں۔غصہ بھی آسکتا ہے اگر تم میرے جذبات چھیڑ کر ایسے گئی"
پارس نے اسکا بیگ کی طرف بڑھتا ہاتھ پکڑ کر دھمکایا۔
"ہاں غصہ تو آپکے ہونٹوں پر بیٹھا رہتا ہے"
وہ گال پھلا گئی۔
"ناک پر ہوتا ہے"
وہ اسکی ناک دباتا درستگی کرتے بھی سنجیدہ تھا
👇آن لائن پڑھنے کے لیے اس بٹن پر کلک کریں۔