Paras Wildflower's Man Urdu Novel Episode 19 By S Merwa Mirza
"میں تو کبھی نہیں مل سکتا تمہارے سوا کسی کو،تو اپنے بابا کی امانت کو اسکے پاس رہنے دو۔کیا یہ مشکل ہوگا جل پری؟"
وہ الجھی،سمجھ نہ آیا پارس کیا کہنا چاہتا ہے۔
"وہ ظالم ہے"
اپنے بابا کے دوسرے حصے پر آنچ تک روشانے سے برداشت نہ تھی۔
"ظالم ہوتا تو اتنی قیمتی دولت اسکے ہاتھ کیسے آسکتی تھی۔مے بی وہ ہم سب میں سب سے زیادہ مہربان ہو۔جب بات محبت کی ہو،ظالم بھی اپنی محبوب شے کو اپنے سائے تلے چھپا لیتا ہے۔اگر تمہیں حاتب مغدام کی آنکھوں میں اپنے بہن کے لیے گہری محبت دیکھائی دی ہے تو یہ تمہارے اطمینان کے لیے کافی ہونا چاہیے۔تم ملی اس سے؟"
وہ آخری سوال پر پھیکا سا مسکرائی۔
"نہیں بس پکچر دیکھی ہے۔بہت خوش تھی ملنے کو پر عین وقت پر حاتب نامی طوفان سے ٹکرا گئی۔پارس!کیا میں واقعی عمائمہ کو اسکے رحم و کرم پر چھوڑ دوں؟اس نے اگر اسکو بھی مجھ سے چھین لیا؟میرے پاس اب وہی ہے دنیا میں واحد وجود جسکے پاس بابا کی خوشبو ہوگی۔"
بہت شدید خواہش کے باوجود وہ اب تک عمائمہ سے دور تھی،یہ تکلیف روشانے کے ہر موں سے چھلک کر پارس کو بھی رنجیدہ کر رہی تھی۔
"مجھے لگتا ہے وہ تلافی کرنے میں ضرور کامیاب ہوگا۔تم جا کر عمائمہ سے ملو۔اسے بتاو کے تم اسکے پاس ہمیشہ ہو۔اسکی خوشی کو ترجیح دینا۔وہ خوش ہوگی تو تمہارے بابا کو بھی سکون ملے گا۔فارس سلطان تم دو کے پاس اپنی اپنی کمی کا نعم البدل چھوڑ گئے ایک دوسرے کی صورت۔یہ بہت بڑی خوشی ہے روشانے۔اسے محسوس کرو۔اور عمائمہ کو بھی کرواو۔۔۔۔"
روشانے نے مسکرا کر پارس کے مضبوط ہاتھ پر اپنا نرم و ملائم ہاتھ رکھا،وہ سارے الم و دکھ سے نکل آئی،اسکا مرجھایا چہرہ واپس پھول ہوا۔
"میں بہت لکی ہوں۔آپ میرے پاس ہیں"
دوسرا ہاتھ اٹھا کر روشانے نے پارس کی گال سے جوڑا جہاں اسکی رخسار پر بڑھی شیو کی چبھن روشانے کو انگلیوں کی پوروں تک اترتی محسوس ہوئی،وہ ہاتھ سرکاتی اسکی گردن کی اطراف لپیٹے پارس کی نیلی آنکھوں سے لمحہ بھر وہ سیاہ چشمان نہ ہٹا رہی تھی۔
پارس عیسی مغلانی کے لیے اپنی کائنات دو آنکھوں سے دیکھنا،دل بھاری کرنے سا مشکل تھا،روشانے نے انگوٹھے کی پور پارس کے نچلے ہونٹ پر رکھتے دبائی،وہ جھٹ سے اسکا بے باک حرکتیں جھاڑتا ہاتھ،مٹھی میں بھر گیا۔
"چلو جاو اب"
پارس نے اسکا دل منہ پھیر کر بری طرح توڑ دیا۔
"نہ جاوں تو؟"
ٹوٹے دل کی کرچیاں سنبھالے اسکے پھیرے چہرے کو آس و تاسف سے دیکھتے حق جتایا۔
👇آن لائن پڑھنے کے لیے اس بٹن پر کلک کریں۔